زندگی
زندگی صدیوں سے بہت مختاط چلی آتی ہے۔
اتنی مختاط کہ ہم سوچ نہیں سکتے جسے
چادر اسود میں لپیٹےاپنا وجود
تاریک راہوں میں یہ چپ چاپ چلی جاتی ہے۔
خوش فہمی حضرت انساں یہ ہے
بے مہر " کو " سمجھا ہے مہر باں یہ ہے۔
نفی بھی وہی اثبات بھی وہی۔
دن ، دن بھی وہی رات، رات بھی وہی
وھی صدیوں پہ مخیط جیت اس کی۔
اور حضرت انساں کی مات بھی وہی
کس کی خواہش تھی کہ جانے وہ دنیا کا وجود؟
لاکھوں جھنجھٹ میں پڑے چھوڑ کر سکوتی سرود
سکوت ایسا کہ کشمکش رنگ و بو سے پاک۔
نالہء بلبل سے پاک، گل سے پاک، بو سے پاک
لفظ ، سے ، معنی ، سے ، شرح و مفہوم سے پاک۔
اشک سے ، ہنسی سے، اور گفتگو سے پاک
کعبہ کا علم نہ میکدے تک رسائی کا خیال
عشق کو دید نہ حسن کہ جلواہ نمائی کا خیال۔
نہ کہیں دولت کا پہاڑ نہ رائی کا خیال۔
موجود ۔ لا موجود، ، ہو ۔ الا ہو ، سے پاک
بندہ بندگی سے پاک۔ جام و سبو سے پاک۔
صوت کن " ہے " جو وجہء وجود ہستی۔
ہر اچھے برے کے ہم کیوں سزاوار ہو گئے؟
مجبور نہ مختار کہ دلیل دے سکیں۔
مجبور ہو گئے تہ "بے معیار" ہو گئے۔
"مختار" ہو گئے تو خطا کار ہو گئے۔
جیسے میخانے میں ایک ملیں شاہد و مشہود
ایسے معبد میں ملتے نہیں عابد و معبو د
جیسے بلبل کوئی نغمہ سرا ہو جائے
زندگی کبی دلہن کی ادا ہو جائے۔
رنگ بدلے تہ یہ بیوہ کی طرح ہو جائے۔
چھپائے آغوش میں جو ننھی سی کلی آتی ہے
زندگی چلی آتی ہے۔
زندگی صدیوں سے بہت مختاط چلی آتی ہے۔
اتنی مختاط کہ ہم سوچ نہیں سکتے جسے
چادر اسود میں لپیٹےاپنا وجود
تاریک راہوں میں یہ چپ چاپ چلی جاتی ہے۔
خوش فہمی حضرت انساں یہ ہے
بے مہر " کو " سمجھا ہے مہر باں یہ ہے۔
نفی بھی وہی اثبات بھی وہی۔
دن ، دن بھی وہی رات، رات بھی وہی
وھی صدیوں پہ مخیط جیت اس کی۔
اور حضرت انساں کی مات بھی وہی
کس کی خواہش تھی کہ جانے وہ دنیا کا وجود؟
لاکھوں جھنجھٹ میں پڑے چھوڑ کر سکوتی سرود
سکوت ایسا کہ کشمکش رنگ و بو سے پاک۔
نالہء بلبل سے پاک، گل سے پاک، بو سے پاک
لفظ ، سے ، معنی ، سے ، شرح و مفہوم سے پاک۔
اشک سے ، ہنسی سے، اور گفتگو سے پاک
کعبہ کا علم نہ میکدے تک رسائی کا خیال
عشق کو دید نہ حسن کہ جلواہ نمائی کا خیال۔
نہ کہیں دولت کا پہاڑ نہ رائی کا خیال۔
موجود ۔ لا موجود، ، ہو ۔ الا ہو ، سے پاک
بندہ بندگی سے پاک۔ جام و سبو سے پاک۔
صوت کن " ہے " جو وجہء وجود ہستی۔
ہر اچھے برے کے ہم کیوں سزاوار ہو گئے؟
مجبور نہ مختار کہ دلیل دے سکیں۔
مجبور ہو گئے تہ "بے معیار" ہو گئے۔
"مختار" ہو گئے تو خطا کار ہو گئے۔
جیسے میخانے میں ایک ملیں شاہد و مشہود
ایسے معبد میں ملتے نہیں عابد و معبو د
جیسے بلبل کوئی نغمہ سرا ہو جائے
زندگی کبی دلہن کی ادا ہو جائے۔
رنگ بدلے تہ یہ بیوہ کی طرح ہو جائے۔
چھپائے آغوش میں جو ننھی سی کلی آتی ہے
زندگی چلی آتی ہے۔