غزل
زندگی مجھے اس موڑ پہ لے آئی ہے
جہاں دور تلک پھیلی ہوئی تنہائی ہے
اپنے ہر جذبے ہر ہواہش کو مارا میں نے
لاش اپنی خود آپ ہی دفنائی ہے
بھلا کون زمانے میں مجھ سا زخمی ہو گا
میں وہ ہوں کہ پھولوں سے چوٹ کھائی ہے
میری چلتی ہوئی سانسوں کا تماشا دیکھو
میری زندگی تماشا ہے دنیا تما شائی ہے
غیروں سے بچ کے نکلا تو اپنوں نے ڈس لیا
زہر دنیا کی میری نس نس میں سمائی ہے
اک شاعر جو بچپن میں سمایا تھا مجھ میں
اب وہ شاعر ہے نہ اس کی پرچھائی ہے
یہ سوچ کر دیوانہ ہوا جاتا ہوں کہ۔۔ ۔ ناصر
میرے دوست کی میرے دشمن سے شناسائی ہے
محمد ذیشان حیدر ناصر
No comments:
Post a Comment