غزل
رخصت ہوا وہ تو یہ راز کھل گیا
دنیا میں کچھ بھی لازم و ملزوم نہیں ہے
اک وہم لگے تھا واجب الوجوب کا ہونا
اک خیال تھا خوادث کا ھجوم نہیں ہے
چلتی رہے گی نبض تو خدشات رہیں گے
رک جاءے گی تواک لحظہ مغموم نہیں ہے
خرابئی وقت پہ اپنوں کی حمائت کی کہانی
کس نے کہاں چھوڑ دیا ؟ معلوم نہیں ہے
زخم گنتے ہوئے ترتیب اعداد نہیں رہتی
درد سہتے ز ہن کو ہوش یک و دوم نہیں ہے
اس کےہاتھ میں چنگاری کودیکھ کے سوچھا
سادہ جسے کہتے تھے وہ معصوم نہیں ہے
پرور دگار رحمت پہ کامل یقین ہے
خرابی میں ہاتھ میرا ہے، مقسوم نہیں ہے
محمد ذیشان حیدر
بدھ ۔ 30/11/11
رخصت ہوا وہ تو یہ راز کھل گیا
دنیا میں کچھ بھی لازم و ملزوم نہیں ہے
اک وہم لگے تھا واجب الوجوب کا ہونا
اک خیال تھا خوادث کا ھجوم نہیں ہے
چلتی رہے گی نبض تو خدشات رہیں گے
رک جاءے گی تواک لحظہ مغموم نہیں ہے
خرابئی وقت پہ اپنوں کی حمائت کی کہانی
کس نے کہاں چھوڑ دیا ؟ معلوم نہیں ہے
زخم گنتے ہوئے ترتیب اعداد نہیں رہتی
درد سہتے ز ہن کو ہوش یک و دوم نہیں ہے
اس کےہاتھ میں چنگاری کودیکھ کے سوچھا
سادہ جسے کہتے تھے وہ معصوم نہیں ہے
پرور دگار رحمت پہ کامل یقین ہے
خرابی میں ہاتھ میرا ہے، مقسوم نہیں ہے
محمد ذیشان حیدر
بدھ ۔ 30/11/11
No comments:
Post a Comment